کافی
جھینگے دنیا بھر میں ایک مقبول سمندری غذا کے ساتھ ساتھ پروٹین کا ایک بھرپور ذریعہ بھی ہیں لیکن بہت سے لوگ مبینہ طور پر ان کے ’نقصان دہ‘ ہونے کی وجہ سے کھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا جھینگے صحت کے لئے واقعی محفوظ نہیں؟ اور کیا جھینگوں میں بہت زیادہ چربی (کولیسٹرال) پائی جاتی ہے۔ لیکن ٹھہریے، کچھ مذاہب میں جیسے یہودی مذہب میں جھینگہ کھانا حرام ہے، ہم مسلمانوں کے ہاں بھی اسے اکثر اسے حرام یا مکروہ قرار دیا جاتا ہے۔ گو قران یا حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے، کچھ علما مکروہ بھی قرار دیتے ہیں، ان کا اپنا استدلال ہے۔ یہاں ہم اس میں آگے نہیں جائیں گے۔ ایک بات اور کہ جھینگوں کو سمندر کا جاروب کش کہا جاتا ہے کیوںکہ یہ سمندر میں موجود حیاتی کچرا جیسے مری ہوئی اور سڑی ہوئی چیزیں کھاتا ہے اور سمندر کو صاف کرتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں لیکن عام طور سے تمام ہی مچلیاں ایسی چیزیں کھاتی ہیں۔
ہم یہاں دیکھیں گے کہ آیا یہ ایک صحتمند غذا ہے کہ نہیں۔
جھینگوں میں واقعی چربی ہوتی ہے البتہ ایک پلیٹ (85 گرام) جھینگے میں اتنی چربی ہوتی ہے جتنی کہ ایک انڈے میں۔ ایک تحقیق کے مطابق کھانے میں موجود ہر چکنائی ہمارے بدن میں چربی کی سطح کو کوئی خاص متاثر نہیں کرتی۔
غذائیت پر ایک جریدے کے مطابق غذا میں شامل چربی خون میں چربی کی سطح کو بالکل بڑھا سکتی ہے، جس سے امراضِ قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، لیکن وہ صرف سیر شدہ (سیچوریٹِڈ) چکنائی، یعنی جس چکنائی میں کوئی دوسرا مادّہ حل نہیں ہو، ہوتی ہے وہ ہی خون میں چربی کی سطح بڑھاتی ہیں۔
85 گرام جھینگے میں 180 ملی گرام چربی ہوتی ہے، جو گائے کے ہم وزن قیمے میں چربی سے دو گنی ہے۔ لیکن جھینگوں میں ’سیر شدہ‘ چکنائی بہت کم پائی جاتی ہے جو صرف 0.4 گرام ہے۔
جھینگوں میں بہت زیادہ آبی آلودگی ہوتی ہے
دیگر سمندری غذا ؤں کی مانند، جھینگے بھی کاشت کیے جا سکتے ہیں یا اپنے قدرتی ماحول میں پکڑے جا سکتے ہیں۔ ہر دو اقسام میں ہماری صحت اور ماحول کے لئے خطرات ہیں۔
فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن کی تحقیق کے مطابق، جھینگا خواہ کاشت شدہ ہو یا قدرتی ماحول کا ، اس میں پارا پایا جاتا ہے۔ یہ ایک کیمیائی مادہ ہے جو انسانی صحت کے لئے سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسے بچوں میں تاخیری علمی نشو و نما، دماغی افعال اور نظا مِ تولید میں پیچیدگیاں اور رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔
گو کاشت اور بے کاشت دونوں اقسام کے جھینگوں میں پارا موجود ہے لیکن اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق کاشت کیے جانے والے اور قدرتی ماحول میں پائے جانے والے جھینگوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔!
جھینگے الرجی کا سبب ہیں
کیکڑے اور جھینگا مچھلی (دیکھنے میں بڑا سا جھینگا جس کے کیکڑے جیسے بازو ہوتے ہیں، عموماً لال رنگ کا) کے ساتھ جھینگے بھی سیپی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
الرجی کی علامات
پیٹ کا درد چکّر آنا، سانس لینے میں دشواری اور خرخراہٹ، اور ہونٹوں اور زبان کی سوجَن
جھینگے سے الرجِک لوگوں کے لئے ایک ہی حل ہے کہ تمام آبی آلودگی والے جانوروں سے پرہیز کریں جیسے مچھلی کا شوربہ، ایسا تیل جس میں سمندری غذا تلی گئی ہو، ا ور سمندری غذا کے ذائقوں کے لئے استعمال ہونے والے مصالحہ جات۔
اس تحریر میں دیگر مواد کے علاوہ، غذائیت، فوڈ سائنس اور نیوٹریشن ویبگاہوں کا ڈیٹا بھی شامل ہے۔